اسلام سلامتی ، امن و آشتی اوربھائی چارگی کا مذہب ہے ۔یہ ہمیں محبت کا سبق دیتا ہے، اللہ سے محبت ، اس کے رسول ﷺ سے محبت ، تمام انسانیت سے محبت۔ غرض یہ دین محبت دین ہے ،یہ اخوت کا مذہب ہے نہ کہ عداوت کا۔ اسلام نے اس وقت صلح کی شمع جلائی جب ہر طرف بغض و عناد کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔حدیث پاک کی روشنی میں اللہ پاک کے نزدیک سب سے افضل عمل اللہ تعالیٰ کیلئے کسی سے محبت کرنا ہے ۔ اسی محبت کی ایک لڑی آپس میں سلام کرنا ہے اور سلام کو رواج دینے کا مطلب یہ ہے کہ سلامتی کو عام کرنا اور اپنے بھائی کو سلامتی امن عافیت کی دعا دینا ۔ ہمارے اسلاف اور بڑوں کی زندگی میں مروت ، محبت ، شفقت اور خیر خواہی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ، ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھنا اور ایک دوسرے سے محبت اور پیار کرنا عام تھا ۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ، حضرت مولانا سید دائود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ اکٹھے ایک ہی ساتھ جلسے میں شریک ہوتے ، حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نماز عیدمولانا دائود غزنوی رحمہ اللہ کے پیچھے پڑھتے اور مولانا سید دائود غزنوی رحمتہ اللہ علیہ جب کبھی تشریف لاتے تو حضرت احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے پیچھے نماز پڑھتے۔اسلاف کے مزاج کی رواداری کا عالم یہ تھا کہ ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلتے اور ایک دوسرے کی طبیعتوں اور مزاجوں کی بھرپور رعایت رکھتے تھے۔حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی بیٹی ایک اہل حدیث عالم کے عقد میں دی اور حضرت لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے نواسے اب بھی امریکہ میں قرآن و سنت کی خدمت ا نجام دے رہے ہیں اور اس طرح کتنے بے شمار خاندان ہیں جن کی آپس میں رشتے داریاں یعنی ایک خاندان حنفی ہے تو دوسرے اہل حدیث یا بریلوی …آپس میں روابط ، آپس میں محبت اور پیار …انہی میں حضرت مفتی محمد حسین نعیمی رحمتہ اللہ علیہ (مہتمم جامعہ نعیمیہ ) موصوف بریلوے مسلک کے تھے لیکن نہایت معتدل مزاج، امت کو جوڑنے والے ، ایک دوسرے سے محبت پیار کرنے والے ، جب بھی کبھی لاہور میں اختلاف ہوا انہوں نے اپنوں کے طعنے سہے لیکن لوگوں کے درمیان پیار اور محبت کا پل بن کر دکھایا ، ان کی یہ قربانیاں اور دوسرے اسلاف کی لازوال قربانیاں صدا باقی رہیں گی ۔ حضرت خواجہ محمد ضیاء الدین صاحب قدس اللہ سرہ ا لعزیز سجادہ نشین سیال شریف کو چشتیہ نظامیہ کے جلیل القدر مشائخ میں شمار کیا گیا ہے ، آپ کو دارالعلوم دیو بند دعوت دی گئی اسٹیشن پر اساتذہ اور طلبہ نے استقبال کیا اور شیخ الحدیث مولاناا نور شاہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس دن چھٹی کا اعلان فرمایا۔ آپ کو اپنی مستند پر بیٹھنے کی پیشکش کی اور آخر میں آپ سے دعا کی درخواست کی گئی۔شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ خدام الدین کے سالانہ جلسے میں دیگر مشائخ کے ساتھ آپ کو بھی مدعو کیا کرتے تھے۔ اسلاف یہ چند نہیں بلکہ بے بہا واقعات ہیں جو ہمیں اس فضاء کو عام کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔ آئیے ہم امت کو ملانے کا ذریعہ بنیں نہ کہ توڑنے کا …ایک ضروری عرض یہ ہے کہ دینی مسائل کے سلسلے میں علمی اختلاف کوئی بری بات نہیں اختلاف ہوتا رہا ہے اور رہے گا۔ اس سلسلے میں محبت اور پیارکی ریت قائم رکھتے ہوئے معاملات کو حل کرلیا جائے تو بہت ہی مناسب معلوم ہوتاہے ۔اللہ مجھے بھی اس طرز کی توفیق عطا فرمائے ۔زیر نظر کتاب نفرتوںکے الائو میں ایک ابابیل کی سی کوشش ہے اور قینچی کے اس دور میں سوئی دھاگہ عام کرنے کی محنت ہے۔ جس کا بنیادی مقصد علمی اختلاف رہتے ہوئے عنادکو ختم کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس قول ’’تعالٰوالٰی کلمۃ سواء بیننا و بیناکم‘‘ پر عمل ہے ۔نیتوں کا معاملہ اس کریم اللہ کے ساتھ ہے۔ اللہ اس کتا ب کوامت کوجوڑنے کا ذریعہ بنائے اورآپس کے عناد اورعداوت کو ختم کرنے کا ذریعہ بنائے۔چند صفحات کی جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔٭ گالیاں دینے والے سے حسن سلوک ٭ سکھ کا ساتھ نیک سلوک ٭حدیث کا ادب و احترام٭بذریعہ خواب باہمی محبت کی رحنمائی
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں